سوجھی آنکھیں سرخ گال
"میں اج بھی کسی بچی کی سوجھی آنکھیں اور سرخ گال دیکھتا ھوں تو جان جاتا ھوں کہ کسی  امیر کے گھر کے برتن ٹوٹے ہیں" کرشن چندر صاحب سرمایہ دار جاگیردار کے ھاتھوں کے نشان غریبوں کے گالوں پر شائد ہمیشہ ہی دیکھے تبھی تو لکھ دیا۔
ان نشانوں کی تاریخ انسان کی ارتقاء کے ساتھ جڑی ہوئی ھے۔ جون جون انسان ترقی کرتا گیا ان نشانوں نے بھی ترقی کی ہاں البتہ ترقی پذیر ریاستوں میں موجود سرخ گالوں پر وہی پرانے نشان ملتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ نشان انسانی ارتقاء کے ساتھ کافی حد تک بدل چکے ہیں- 






ریاستیں قانوں اور پالیسی سازی کے ذریعے آج کے دور میں غریبوں کے گال سرخ کرتے ہیں۔ حقوق کا پرچار بھی وہیں ھوتا ہے جہاں حقوق غصب کیے جاتے ھوں۔ پرچار نہ ھو اس لیے غریب کے لیے دستیاب شعور کی سیڑھی کو دیمک ذدہ رکھا گیا ھے۔ نہ سوچ پروان چڑھے اور نہ ہی شعور کی بند کھڑکی کھلے۔ قانوں اور پالیسی ساز اداروں میں سرمایہ دار جاگیردار یا ان کے حمایت یافتہ گروہوں کا قبضہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آج جتنی بھی آنکھیں سوجھی ھوئی اور سرخ گال نظر آتے ہیں وہ انہی کی مرہونِ منت ہیں۔ بلکہ اب بھوک افلاس کی وجہ سے آنکھوں پر اتنا گوشت ہی نہیں رہا کہ سوجھی ھوئی نظر آئیں اور نہ جسم میں اتنا خون بچا ہے کہ گال سرخ ھوں۔ اب تو کہنا چاہے جب بھی سوکھی آنکھیں اور چپکے گال دیکھتا ھوں تو جان جاتا ہوں کہ پھر ریاست کی ڈور معاشرے کے شرفاء کے ھاتھوں میں ھے۔
پاکستان میں ریاست نے لوگوں کے زندگی کے بنیادی تصورات کو ہی پروان نہ چڑھنے دیا۔ جو ابھی اس دنیا میں آئے بھی نہیں ان کے لیے بھی غربت و افلاس کا پہلے سے بندوبست کر رکھا ھے۔ زندگی کے تصورات جن کی وجہ سے لوگ غربت افلاس سے نکل سکتے ھیں ان میں بنائے گئے سماجی اقدار کا بھی بڑا ھاتھ ھے۔ جن میں سر فہرست "ریاست ماں ھوتی ھے, ہمیشہ جھوٹ کی دنیا میں سچ بولو, کرپشن نہیں کرنی, ایمانداری, ریاست کے ہر بات پتھر پر لکیر ہے, ملک ہے تو ہم ہیں" ان اقدار نے ایک فرد کے ھاتھ پاوں باندھ دے ھوتے ہیں اور ان تصورات کے ساتھ جب ایک فرد پریکٹیکل زندگی میں قدم رکھتا ھے تو حالات کو برعکس پاتا ھے۔ اور فرد کے ساتھ جو اچھا برا ھوتا ہے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کے قبول کرتا چلا جاتا ھے۔ Fyodor Dostoyevsky ایک مشہور ناول نگار روس کی سرزمیں میں پیدا ھوا نوٹس فرام انڈر گراونڈ سے ترجمہ شدہ۔۔۔۔۔۔۔

ایک ذہین آدمی سنجیدگی سے کچھ بھی نہیں بن سکتا اور  جو زندگی میں کچھ بن جاتے ہیں وہ احمق ہوتے ہیں۔

ہاں، انیسیویں صدی میں ایک انسان کو اخلاقی طور پر انتہائی بدکردار ہونا چاہیے۔ ایک اچھے کردار کا مالک چست آدمی انتہائی محدود سی مخلوق ہے۔۔

معزز لوگوں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اپنے اردگرد ہونے والے واقعات کے بارے میں جاننا بھی ایک بیماری ہے۔ مکمل طور پر مسلسل رہنے والی بیماری۔۔۔
مصنف نے سماجی اقدار کے حوالے سے فرد کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جب ریاستیں خود کرپٹ ھوں تو اگر فرد کریٹ نہیں ھوگا تو وہ سرمائے کی دوڑ میں دھول میں بھی نظر نہیں آئے گا۔ اور اس کی آل اولاد اس کی قبر پر فاتحہ کے لیے بھی نہیں آے گئ۔ آج کا فرد جس دور میں سانس لے رہا ھے یہ دور ریاستوں کے کرپٹ ہونے کا ھے۔ ریاستیں ایک طرف انسانی حقوق کی بحث کو سمیٹ رھیں ھیں تو دوسری طرف عوام کے گلے میں ڈالی ہوئی رسی کو سرمایہ دار کے ھاتھوں میں تھما رھی ھے۔ (neo-liberalism) کے ذریعے انسان کو جدید غلامی میں دھکیلا گیا اور سرمایہ دار کے ھاتوں مڈل کلاس کی منجھی ٹھکوانے کے بعد اب ایک نی قسط کا آغاز ھو چکا ھے۔ جس کے مطابق ریاستیں "پکی" نوکری صحت تعلیم آب و نکاسی آب جیسی ذمہداریوں سے فراغ حاصل کرے گئی اور سارا سماجی نظام سرماپہ دار کو سونپ دے گئی۔ ریاستوں نے شہری کے ٹیکس سے بنائے گئے ھسپتالوں کو جدت نہیں دی بلکہ انشورنس کمپنیوں کے ذریعے سرمایہدار کے بنائے ھوئے پرائیویٹ ھسپتالوں کو کاروباد دے دیا ھے۔ اس حقیقی مثال سے آپ کو سمجھنے میں قطعاً مغالطہ نہیں لگے گا کہ کیا ریاست شہریوں کے ساتھ ویلفیئر کے نام پر کیا کرنے جا رہی ہیں جب ریاست شہریوں کے حقوق کو آ ئینی تحفظ نہ دے سکی تو سرمایہ دار سے کوئی توقع رکھنا ہر گز شہری کی صحت کے فائدہ مند نہیں ھوگا ھاں وفاداری جی حضوری اور تلوے چاٹنے آنے والے وقتوں میں ذیادہ موئثر حکمتِ عملی ھو گئی۔ سرمایہ دار اور جاگیردار کی آل اولاد کے پاس سرمائے کی فراہمی کی بدولت اعلٰی اور جدید تعلیم کے مواقع موجود ھیں اور جو ایمانداری جھوٹ اور سچ بولنے کی چٹنی روز  کھاتے ہیں ان کے پاس کیا ھے؟ ویلفیئر ریاست کی بین آج کل ہماری موجودہ حکومت بھی بجا رھی ھے۔ حالانکہ موجودہ بین الاقوامی نظام امریکہ اور یورپ سے ویلفئیر ریاست کے تصور کا قلہقمہ کر رھا ھے۔ پیلی شرٹس  ھانگ کانگ اور یونان میں ھونے والے احتجاج اس نظام کے پس پردہ عزائم کے خلاف تھے۔ اس ھی نظام کی خوائش کے مطابق دنیا کو live performance  یا gig economy کی طرف مائل کیا جا رھا ھے۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گئی بانسری نہ ھو گا عوام کا اگٹھ اور نہ ھو گا احتجاج۔

Comments

Popular posts from this blog

How does COFFEE improve Health, Liver & Fitness?